اسلام آباد ( انٹرویو خادم بٹر) اسلام آباد میں ججز کے خط کی دو دن سے ملک بھر میں بہت زیادہ تشہیر کی جا ری ہے ۔خط میں عدلیہ اور ججز پر دبائو کا ذکر کیا گیا ہے کیا اور گو کہ لفظوں میں در پردہ ہے لیکن سیدھا سیدھا اسٹیبلشمنٹ اوراداروں پر الزام عائد کیا گیا۔
ان خیالات کا اظہار سینئر ایڈووکیٹ ہائیکورٹ مجیب الرحمان کیانی نے کیپٹل اپڈیٹ کو انٹریو کے دوران کیا کیا اس سے ادارے کمزور نہیں ہوتے اس وقت عدلیہ میں لاکھوں کیسز التواء کا شکار ہیں جو کہ عام عوام کے ہیں عوام کے کیسز کے فیصلے عدالتوں میں ججز سے25,25 ،30,30 سال تک نہیں ہوتے، ایسی مثالیں بھی بن چکی ہیں کہ عام آدمی عدالتوں میںبھری جوانی میں مقدمہ لڑنا شروع کرتا ہے اور عدالتوں میں چکر لگا لگا کربرھاپا آنے پر مر کھپ جاتا ہے ۔
اس کے بعد کیس فیصلہ ہوتا ہے سزا سے دس گنا زیادہ سزا ججز کی وجہ کاٹتا ہے یہ ایک دو کیسز نہیں لاکھوں کیسزہیں ججز پر اس طرح کاعوام سے روئیہ اور کیسزسے سلوک رواں رکھنے کے لئے کس کا دبائو ہوتا ہے یہ خط ایک ڈرامہ ہے اداروں کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔
خط سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا عدلیہ کی عالمی سطح پر گری ہوئی ساکھ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا نہ ہی بہتری آئے گی سینئر ایڈووکیٹ ہائیکورٹ اسلام آباد راولپنڈی مجیب الرحمان کیانی نے مزید کہا کہ سیاستدانوں پر تو قانون لاگو ہے کہ وہ صدر ،وزیر اعظم ،وزیر ،مشیر ،یا دیگر کسی عہدے پر آجائے تواپنے کاروبارسے نہیںکر سکتے ۔
جب ایک وکیل وکالت شروع کرتا ہے تو اپنی لاء فرم بنا تا اپنے چیمبر بناتے ہیں وہ ججزکی پوسٹ پر آتے ہے توجو فرمیں چیمبر بنا ئے جاتے ہیں وہ کیوں چل رہے ہوتے ہیں ایسے ججز ہوتے ہیں ان کو ایسٹ ویسٹ کا علم نہیں ہوتا کہ کیس کہاں چلے گا۔
مجیب الرحمان کیانی نے کہا ہے کہ یہاں تو رشتہ دار بھائی بھتجے جج ہیں حتٰی کہ ججز کی بیویاں بھی جج ہیں اور جج صاحب خودجج کے عہدے سے مستعفی ہوجاتے ہیں اور بیوی ہویا رشتہ دار یا بھائی وہی جج وکیل بن کر ان کی عدالتوں میں کیس لگواتے ہیں یہ کونسا دبائو ہوتا ہے اپنے رشتہ داروں کے کیسز خود سنتے ہیں مرضی سے فیصلے ہوتے ہیں ججز کی رپورٹس بھی بنتی ہیں اگر اپنی مرضی سے اپنے مفاد کے لئے کام ہو سکتے ہیںتو دوسروں پر الزام کیوں عدلیہ میں انصاف ہو عدالتیں قانون اور آئین کے تحت کام کریں یہ تو سالوں سے عوام مطالبہ کر رہی ہے۔
جن ججز نے یہ خط لکھا ہے ان کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے یہ ججز انکی عدالتوں میں سالوں سے عام شہریوں کے ہزاروں کیسز زیر التوا نہیںہیں جن کو یہ نہ سن رہے ہیں ن فیصلے کر رہے ہیںایسا کرنے کیلئے عوام کو بتائیں کہ ان پر کس کا دبائوہے کیا یہ عدل ہے یہ انصاف ہے کیا عدلیہ میں خدمات یا دلچسپی صرف مخصوص کیسز ہیں عوام کو فوری انصاف ملے کیا اقدامات کئے گئے ہیں ان کی طرف سے کیا اپنے ماتحت زیرسماعت مقدمات ادھورے نہیں چھوڑے ہوئے کیا تمام کیسز نپٹا دیئے ہیں۔
ہزاروں کیسز ہیں جن کے سالوں سے فیصلے نہیں ہوتے کتنے خط لکھے ہیں اس کے لئے کام کر کے دکھانا ہوگا صحیح کو صحیح اورغلط کو غلط کہنے کی عادت ڈالنے پڑے گی کیسز میں جو ریمارکس دیئے جاتے ہیں ان پر فیصلے کرنے ہوں گے یہ نہیں اپنے پر آئے یا اپنی ذات کا مسئلہ بن جائے تو خط لکھنا شروع کر دیئے کنونشن بلانے تحریک چلانے کے مطالبا ت شروع کر دیئے۔
جج کا عہدہ بہت بڑا عہدہ ہوتاہے لیکن صرف عوام کے لئے اگر عوام کے لئے آپ نے کچھ نہیں کیا تو یہ مفاد پرستی میںزمرہ میں آئے گا پہلے اپنے گھر سے انصاف شروع کریں جب خود کوئی نیٹ کلین ہو ں تودوسروں پر الزام پھر لگائیں اس عمل سے اسٹیبلشمنٹ اور ملکی سیکورٹی کے اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس کی مکمل انکوائری ہونے چاہیے ۔