کمیونٹی ورلد سروس ایشیا کے زیر اہتمام کانفرنس میں ملک سے پارلیمنٹرین،مذہبی،سماجی،ماہرقانون ساز،وکلاء،ہیومن راٗٹس تنظیموں،حکومتی نمائندگانو کارکنان کی بھرپور شرکت1
اسلام آباد (خادم بٹر سٹاف رپورٹر) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کرسچن پرسنل لاز کے موضوع پر آل پارٹییز کانفرنس منعقد ہوئی،کانفرنس کا اہتمام کمیونٹی ورلڈ سروس ایشیا کی طرف سے کیا گیا کانفرنس میں ملک بھر سے ملک کی تمام پارلیمنٹ میں نمائندگی کرنے والے اکثریتی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں،مذہبی رہنماوں،دیگر سیاسی وسماجی رہنماوں کے ساتھ وکلاز کی اکثریت نے بھرپور شرکت کی،
شرکا کانفرنس سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے قیام پاکستان کے بعد آباد مسیحیوں کیلیے ان کے شادی اور طلاق کے مسائل پر کھل کر بات کی اور ملک میں رائج 150سال قبل کے شادی اور طلاق کے قوانین کو بوسیدہ قرار دیا اور ان قوانین کو ملکی آئین کے آرٹیکل 37 جس میں اقلیتوں کو تحفظ دیا گیا ہے ان کی مذہبی تقافتی سرگرمیوں کا جبکہ آرٹیکل 38جس میں ان کو تعصبات محفوظ رکھنے کے لئے اپنے قانون سازی کی اس کے متصادم قرار دیا۔
مقررین ان میں ضیغم خان،سمیراشفیق،منزہ شاہین تجزیہ نگار و صحافی،رابعہ محمود،سمیرا شفیق،ڈاکٹر شعیب سڈل،مہناز اکبر عزیزسابق پارلیمنٹرین،نیلوفر بختیارچیئر پرسن وومن رائٹس کمیشن،ڈاکٹرعائلہ سیاستدان،شعیب شاہین ماہر قانون،صوفیہ سعید،نوید انتھونی پارلیمنٹرین،ہاشم بابر سیاستدان،سینیٹر فرحت اللہ بابر،بشب سیموئیل عزرایامذہبی نے شرکا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ طلاق کے قانون ایکٹ 1869اور شادی کے قانون ایکٹ 1872 جو کہ برٹش دور میں رائج تھے ان کی اس وقت کی ضروریات کو ہوسکتا ہے پورا کرتے ہوں لیکن 150سال پہلے کے حالات اور موجودہ حالات میں بہت سے تبدیلیاں آچکی ہیں
شادی وطلاق کے ان قوانین سے ملک کے مختلف معاشروں میں مذہبی،معاشرتی اور قانونی پچییدگیاں ہو رہی ہیں ان سے پیدا ہونے والے مسائل اور مشکلات سے ملک کی ایک بہت بڑی آبادی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ملک کے آئین میں جو حقوق اور آزادی ان کو فراہم کی گئی ہے وہ سلب ہو رہی ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اورآزادی کے خواب کی تعبیر کیلیے ٹھوس اوربہتر اقدام کرنے ہوں گے۔
ایسے اقدامات جو معاشرے نظر آئیں ہر مذہب کے ماننے والوں کیلیے ملک میں کے شادی اور طلاق کا قانون بنیادی حق ہے اس سے اس مذہب کا ہی نہیں خوبصورت معاشرے کا روشن پہلو دنیا کے سامنے جاتا ہے۔ کرسچن ملک میں ایک بڑی اقلیت ہی نہیں بڑی آبادی ہیں آئین کے متصادم شادی اور طلاق کے قوانین میں ترمیم یا ان کے متبادل کرسچن پرسنل لاز ان کا حق ہے
پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی قانون سازی کے لیے نہ ہونا بڑی وجہ ہے کیونکہ ان کے نمائندے ان کے ووٹوں سے برائے راست نہیں آتے بلکہ وہ بڑی پارٹیوں کی طرد سے نامزد ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں اس لیے ان تمام سیاسی جماعتوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اگر ہم ملک میں اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں ان کے حقوق کے تحفظ کا دعوی کرتے
ہیں۔
تمام سیاسی جماعتوں کو پارلیمنٹ میں اس کے لئے لابنگ کرنا پڑے گی۔ شادی اور طلاق کے قوانین کیلیے قانون سازی کی راہ ہموار ہو اور ایسے قوانین بنائے جائیں جو ملک میں آباد تمام کرسچن فرقوں کی مشاورت سے ہوں جو سب فرقوں کو قابل قبول ہو، رہنما،چیئر پرسن کمیونٹی سروس ایشیا نائرہ حسین نے کانفرنس کے اختتام پر تمام شرکا کی طرف سے کانفرنس میں شرکت پر ان کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور ان کی طرف سے آنے والے آرا نشاندہی کی جانے والے ایسی پہلووں کا ذکر کیا جس کی رہنمائی سے پاکستان میں کرسچن ک کمیونٹی کے نوجوان نسل کو شادی اور طلاق کے مسائل کا خاتمہ ہوگا اور کرسچن پرسنل لاز پر قانون سازی کے لئے ایک تحریک اور رہنمائی ملے گی۔
Good work for Christianity keep it up
بہت ہی اچھی؛خبر ہے اس پر کام ہونا چاہیے جس نے بھی قدم اٹھایا ہے بہترین ہے
Good
thank you