اولپنڈی (خادم بٹر کیپٹل اپڈیٹ)گذشتہ روز بے نظیر بھٹو شہید ہسپتال کی ایمرجنسی میں لیڈی ڈاکٹر جویریہ پر ہونے والے حملہ کے خلاف ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن راولپنڈی نے شدید احتجاج کیا اور واقعہ کی پر زور مذمت کی حملہ ایک مریض کی ہسپتال میں موت کے بعد موجود ایک جھتے نے کیا
حملہ میں شامل لوگوں نے ڈیوٹی پر موجودڈاکٹرز کو زد کوب کیاان سے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے ان کی توہین کی گئی اورتشدد کرتے ہوئے ڈاکٹر جویریہ کا ہاتھ توڑ دیا اور مزید برآں حملہ آور ہسپتال کے ایم ایس پر حملہ آور ہو ئے۔
جس پر ینگ ڈاکٹرز ہسپتال کے دیگر عملہ نرسنگ سٹاف پیرا میڈیکل عملہ انتظامی عملہ نے ہسپتال میں داخل ہوکر کار سرکار میں مداخلت اور دوران ڈیوٹی ڈاکٹرز پر تشد د کرنے کے خلاف احتجاج کیا ان کا مطالبہ تھا کہ حکومت نے اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کیلئے اسی ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کو سچ بولنے کی پاداش میں برخواست کر دیا تھا اور تا حال بحال نہیں کیا۔
راولپنڈی کا اس وقت واحد سرکاری ہسپتال حکومت کی نا اہلی کے باعث ڈاکٹرز کیلیے ایک بھیانک خواب بن چکا ہے۔ یہاں آئے روز دنگا فساد معمول کی بن چکا ہے۔
ڈاکٹر ہمایوں وڑائچ نے میڈیا سے کہا ہے کہ بے نظیر بھٹو شہید ہسپتال میں پہلے ہی بہت زیادہ ر ش ہوتا تھا عملہ کی کمی ہے ڈاکٹر ز کم ہیں حکومت نے ہولی فیملی ہسپتال بند کر کیے ہزاروں مریضوں کا بوجھ بے نظیر بھٹو شہید ہسپتال پر ڈال دیا ہے ور ہسپتال کی استعداد سے زیادہ تعداد خطرناک حد تک بڑھا دی ہے جبکہ سہولیات اور سکیورٹی کا سرے سے کوئی انتظام نہیں۔
ہسپتالوں میں سہولیات فراہم کرنا جو نہ ہونے کے برابر ہیں ہسپتال میں جو سہولیات ہیں وہ انتظامیہ فراہم کرتی ہیں ڈاکٹرز صرف چیک اپ کرتے ہیں مریضوں کا علاج کرتے ہیں حکومت ذمہ داری ہے لیکن لوگ اپنا غصہ حکومت کی بجائے ڈاکٹرز پر نکالنا معمول بنا چکے ہیں ان کو قصائی جیسے القبات سے پکارا جاتا ہے
تمام ڈاکٹرز اپنے پیشہ کو مقدس سمجھتے ہیں مقدس مانتے ہیں یہاں تک کہ اکثر ڈاکٹرز اپنی جیبوں سے غریب شہریوں کو ادویات تک خرید کر دیتے ہیں ان کو خون کے عطیات دیتے ہیں تاکہ مریض شفا یاب ہو۔ اس موقع پر انہوں نے کہاکہ ہم مشکل صورت حال میں ملک بھرکے تمام ڈاکٹرز سے اپیل کرتے ہیں کہ ہماری آواز اور سہارا بنیں۔
ڈاکٹر ایاز حیدرمغل نے کہا کہ یہ بالکل درست ہے ہمارا پیشہ انسانیت کے لیے ہے۔لیکن تاجر، چینی فراہم کرنے والے، کپڑے کے تاجروں، کھانے پینے کے تاجروں کا نہیں؟ میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنانے سے پہلے چیزوں کو دیکھے بلکہ اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ معاشرتی مثبت اصولوں اور ویات و رواج کو اجاگر کرے اورمعاشرے کی بہتر ی کے لیے چوکس نظر رکھے غیر ضروری تنقید کا راستہ اپنانا اور آگے بڑھنا دانشوروں کا معیار نہیں ہے